امانتوں کے اہل تک پہنچانے کا معانی

امانتوں کے اہل تک پہنچانے کا معانی

القــرآن !
" إِنَّ اللَّهَ يَأْمُــرُكُــمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَــانَاتِ إِلَـىٰ أَهْلِهَــا "
" بیشک الله تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو "
{ ســورہ النســاء ، آیت_٥٨ }
امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے الله تعالیٰ کے اس قول کے متعلق سوال کیا تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
" اس آیت میں صرف ہم کو مخاطب کیا جا رہا ہے ، الله تبارک و تعالیٰ نے ہم میں سے ہر امام کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم اپنے بعد آنے والے امام کے سپرد کر دیں اور اس کی جانب وصیت کر دیں ( تو اصل مخاطب ہم تھے ) پھر یہ آیت جاری ہو گئی تو تمام امانتوں کے سلسلے میں - یقیناً مجھہ سے میرے پدر بزرگوار علیہ السلام نے بیان کیا اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے کہ بیشک علی بن حسین علیھم السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا :
" تم پر لازم ہے کہ امانتوں کو ادا کر دو ، پس اگر میرے پدر بزرگوار حسین بن علی علیہ السلام کا قاتل میرے پاس اس تلوار کو امانت کے طور پر رکھواۓ کہ جس سے میرے پدر بزرگوار کو قتل کیا تھا تو یقیناً میں اسکو ( واپس ) سپرد کتروں گا "
{ معــانی الاخبــار، جــلد_١، حــدیث_٤١، صفحــہ_١٤٩ }

0 comments:

کام کے آغــاز سے پہلے انجــام پر نظر

کام کے آغــاز سے پہلے انجــام پر نظر


ایک شخص رسول _خدا صل الله علیہ و آل وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا :
یا رسول الله !
مجھے کچــھ ہدایت فرمــائیں -
حضــور (ص) نے فرمایا :
اگر میں تمہیں ہدایت کروں تو کیا تم اسے قبول کرو گے ؟؟
اس نے کہا : ہاں یا رســول الله (ص) !
یہ جملہ حضور (ص) نے تین مرتبہ دہرایا اور اس نے بھی تینوں مرتبہ مثبت جواب دیا -
حضــور (ص) نے فرمایا :
پھر سنو ! میری تمہیں یہ وصیت ہے کہ جب تم کسی کام پر کمر بستہ ہو جاؤ تو پہلے اس کے انجام کے بارے میں سوچ لو - اگر اس میں رشد ہدایت ہے تو اسے کر گزرو اور اگر گمراہی اور بے راہروی ہو تو اس سے دور رہو -
{ بحــار الانــوار ، جــلد_٧١، صفحــہ_٣٣٩ }


Copy From :- Kaneez e Zainab s.a

0 comments:

قرآن کریم میں آئمہ اطہار۴ کا ذکر






" قرآن کریم میں آئمہ اطہار۴ کا ذکر "

ابن _عباس سے روایت منقول ہے کہ حضرت پیغمبر اکررم صل الله علیہ و آل وسلم فرماتے ہیں کہ :
" الله کا ذکر عبادت ہے ، میرا ذکر عبادت ہے ، علی کا ذکر عبادت ہے ، آئمہ طاہرین کا ذکر عبادت ہے - اس ذات کی قسم جس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا اورافضل المخلوق قرار دیا کہ بیشک میرے وصی تمام اوصیاء سے افضل ہیں اور وہ بندوں پر الله تعالیٰ کی حجت ہیں - الله کے خلیفہ ہیں اور ان ہی کی اولاد سے آئمہ ہدایت ہوں گے - اور ان ہی کی وجہ سے الله نے عذاب کو مؤخر کیا ہوا ہے اور آسمان انہی کے وجود کے سبب زمین پر گرنے سے باز ہے اور پہاڑ اپنی جگہ پر قائم ہیں اور ان ہی کی وجہ سے مخلوق پر بارش برستی ہے اور ان ہی کی وجہ سے الله تعالیٰ زمین میں کھیتی اگاتا ہے اور یہ لوگ ہی الله تعالیٰ کے حقیقی ولی ہیں اور اس کے سچے خلفاء ہیں اور ان کی تعداد سال کے مہینوں کے برابر ہے اور ان کی تعداد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نقباء کے برابر ہے -
پھر حضرت رسول الله (ص) نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
القـــرآن !
" وَالسَّمَـــاءِ ذَاتِ الْبُـــرُوجِ "
" برجوں والے آسمان کی قسم ! "
{ سورہ بروج ، آیت_١ }
پھر فرمایا :
بے شک الله عز و جل قسم کھاتا ہے - اس آسمان سے جو ذات ابروج ہے -
ابن _عباس نے پوچھا :
یا رســـول الله (ص) وہ کیـــا ہے ؟؟
آپ نے ارشـاد فرمایا :
پس آسمان سے مراد میں ہوں اور بروج سے مراد آئمہ طاہرین ہیں جو میرے بعد ہونگے ان میں سے اول علی ابن _ابی طالب علیہ السلام ہیں اور آخری حجت _آل _محمد عجل الله تعالیٰ فرجھم شریف ہیں -
{ کمــال الــدین ، جــلد_٢، صفحـــہ_٩٨٠ }
Copy From :- Kaneez e Zainab s.a

0 comments:

گناہ صغیرہ کا مسلسل ارتکاب گناہ کبیرہ کی طرف لے جاتا ھے

گناہ صغیرہ کا مسلسل ارتکاب گناہ کبیرہ کی طرف لے جاتا ھے!

آیت الله بهجت (ره)
ترجمہ:صادق تقوی
اگر ھم راہ حق اور راہ راست سے تھوڑا سا بھی منحرف ہو ں گے تو جنوں اور انسانوں کے شیاطین ھم پر مسلط ہو جائیں گے!
اگر کسی انسان کو نجاح (نجات) و فلاح (کامیابی) کا راستہ مل جائے تو اُسے آسودہ کاطر ہو جانا چاھیے کہ یہی حقیقی راستہ ھے!
ھمیں چاھیے کہ عملی طور پر یہ عہد و پیمان کریں کہ ھم راہ خدا میں ہی قدم اٹھائیں گے اور ھمارا عزم و ارادہ یہ ہو کہ ھم کسی بھی حکم خدا کی مخالفت نہیں کریں گے!
ھم مصمم ارادہ کریں کہ ھم نگاہ صغیرہ کے قریب بھی نہیں جائیں گے کیونکہ گناہ صغیرہ کو مسلسل انجام دینا ھمیں بڑے بڑے گناہوں کی جانب لے جائے گا اور انسان کی یہی عادت اُسے اُس کے اونچے مقامات اور رتبوں میں بھی خطاء اور گناہ کی طرف کھینچ کر لے جاتی ھے!
لیکن ھم ایسا کیا کام کریں کہ ھمارا وہ دوست اور رفیق جو ایک جانب سے ہمیں اپنی جانب مسلسل دعوت دے رھا ھے اور دوسری جانب ھمارا دوسرا رفیق !
اصحاب یمین(سیدھے ہاتھ والوں) میں سے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں:
ھمارے ساتھ دوستی کرو!
جبکہ اصحاب یسار (الٹے ہاتھ والے) ھمیں کوئی وعدہ نہیں دیتے ہیں لھذا ھمارے عقل و گوش اور ہوش کو ہمارے ساتھ ہونا چاھیے!
--------------------------------
☜ لطفا با اشتراڪ گذارے بـہ انتشار مطلب ڪمڪ ڪنید.

0 comments:

ﻣﻼﺋﮑﮧ ﮐﯽ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ



       
ﻣﻼﺋﮑﮧ ﮐﯽ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ 





ﺍﺑﻦ _ﻋﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ :
ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ )ﺹ ( ﻣﻌﺮﺍﺝ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ
ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ) ﻓﺮﺷﺘﮧ ( ﮐﻮ
ﺑﺼﻮﺭﺕ ﻋﻠﯽ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ - ﺣﻀﺮﺕ )ﺹ (
ﻧﮯ ﮔﻤﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯿﮟ -
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﺍﮮ ﻋﻠﯽ ! ﺗﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺠﮭﮧ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺁ
ﮔﺌﮯ ؟؟
ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ :
ﯾﮧ ﻋﻠﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﮐﺎ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮨﮯ، ﻣﻼﺋﮑﮧ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺘﯿﺎﻕ ﺗﮭﺎ ﻟﮩٰﺬﺍ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ -
ﺍﻧﺲ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ :
ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ
ﺭﺳﻮﻝ _ﺧﺪﺍ )ﺹ ( ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ
ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﮯ
-
ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﮬﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ
ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﯽ ﺍﺑﻦ _ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﮨﯿﮟ -
ﺣﻀﺮﺕ )ﺹ ( ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﮐﯿﺎ ﺍﮨﻞ _ﺳﻤﺎﻭﺍﺕ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ
ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟؟
ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮨﮯ - ﺟﺲ ﻏﺰﻭﮦ ﻣﯿﮟ
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﮐﮩﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺣﻤﻠﮧ
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ - ﮨﻢ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭﮧ ﺭﮨﮯ -
ﺟﻮ ﺿﺮﺏ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﻣﺎﺭﯼ ، ﮨﻢ
ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﺭﯼ - ﺍﮮ ﻣﺤﻤﺪ ! ﺍﮔﺮ ﺁﭖ
ﻣﺸﺘﺎﻕ ﮨﻮﮞ ﺯﯾﺎﺭﺕ _ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﺯﮨﺪ ،
ﯾﺤﯿﯽٰ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﺍﺙ ،
ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺨﺎﻭﺕ ﮐﮯ ، ﺗﻮ
ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ
ﮐﺮﻭ -
} ﻣﺠﻤﻊ ﺍﻟﻔﻀﺎﺋﻞ ، ﻣﻨﺎﻗﺐ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺑﻦ
_ﺷﮩﺮ _ﺁﺷﻮﺏ ، ﺟﻠﺪ،٢-١_
ﺻﻔﺤﮧ{ ٣٠٢-٣٠١_
          ﯾﺎ ﻋــﻠﯽ۴ ﻣـــﺪﺩ -:Copy From

'‎ﻣﻼﺋﮑﮧ ﮐﯽ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯﻣﺤﺒﺖ "ﺍﺑﻦ _ﻋﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ :ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ )ﺹ ( ﻣﻌﺮﺍﺝ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ) ﻓﺮﺷﺘﮧ ( ﮐﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻋﻠﯽ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ - ﺣﻀﺮﺕ )ﺹ (ﻧﮯ ﮔﻤﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯿﮟ -ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :ﺍﮮ ﻋﻠﯽ ! ﺗﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺠﮭﮧ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﮔﺌﮯ ؟؟ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ :ﯾﮧ ﻋﻠﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕﮐﺎ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮨﮯ، ﻣﻼﺋﮑﮧ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺘﯿﺎﻕ ﺗﮭﺎ ﻟﮩٰﺬﺍ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ -ﺍﻧﺲ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ :ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡﺭﺳﻮﻝ _ﺧﺪﺍ )ﺹ ( ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﮯ-ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﮬﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﯾﮧﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﯽ ﺍﺑﻦ _ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﮨﯿﮟ -ﺣﻀﺮﺕ )ﺹ ( ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :ﮐﯿﺎ ﺍﮨﻞ _ﺳﻤﺎﻭﺍﺕ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮﭘﮩﭽﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟؟ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮨﮯ - ﺟﺲ ﻏﺰﻭﮦ ﻣﯿﮟﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﮐﮩﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺣﻤﻠﮧﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ - ﮨﻢ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭﮧ ﺭﮨﮯ -ﺟﻮ ﺿﺮﺏ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﻣﺎﺭﯼ ، ﮨﻢﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﺭﯼ - ﺍﮮ ﻣﺤﻤﺪ ! ﺍﮔﺮ ﺁﭖﻣﺸﺘﺎﻕ ﮨﻮﮞ ﺯﯾﺎﺭﺕ _ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧﺍﻟﺴﻼﻡ ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﺯﮨﺪ ،ﯾﺤﯿﯽٰ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﺍﺙ ،ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺨﺎﻭﺕ ﮐﮯ ، ﺗﻮﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎﮐﺮﻭ -} ﻣﺠﻤﻊ ﺍﻟﻔﻀﺎﺋﻞ ، ﻣﻨﺎﻗﺐ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺑﻦ_ﺷﮩﺮ _ﺁﺷﻮﺏ ، ﺟﻠﺪ،٢-١_ﺻﻔﺤﮧ{ ٣٠٢-٣٠١_ #ελλ_ηακνι‎'

0 comments:

" حیاء مکمل دین ہے"


" حیاء مکمل دین ہے"

القرآن !

" وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ o فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ o فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ "

" اور جب مدین کے چشمہ پروارد ہوئے تو لوگوں کی ایک جماعت کو دیکھا جو جانوروں کو پانی پلارہی تھی اور ان سے الگ دو عورتیں تھیں جو جانوروں کو روکے کھڑی تھیں .موسٰی نے پوچھا کہ تم لوگوں کا کیا مسئلہ ہے ان دونوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے ہیں جب تک ساری قوم ہٹ نہ جائے اور ہمارے بابا ایک ضعیف العمر آدمی ہیں۔
موسٰی نے دونوں کے جانوروں کو پانی پلادیا اور پھر ایک سایہ میں آکر پناہ لے لی عرض کی پروردگار یقینا میں اس خیر کا محتاج ہوں جو تو میری طرف بھیج دے۔ اتنے میں دونوں میں سے ایک لڑکی کمال شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور اس نے کہا کہ میرے بابا آپ کو بلارہے ہیں کہ آپ کے پانی پلانے کی اجرت دے دیں پھر جو موسٰی ان کے پاس آئے اور اپنا قصّہ بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ڈرو نہیں اب تم ظالم قوم سے نجات پاگئے "
{ سورہ قصص ، آیات _٢٣-٢٥ }
س واقعہ سے حیا اور پاکدامنی کو بخوبی (سمجھا جا ) کیا جا سکتا ہے چونکہ:
۱- جب تک مرد چشمہ کے پاس سے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر دور نہیں ہو جاتے تھے تب تک جناب شیعب کی بیٹیاں چشمہ کے پاس نہیں جاتی تھیں۔
۲- اس وقت اپنی بھیڑوں کو پانی پلاتی تھیں جب تمام مرد دورہو جاتے تھے۔
۳- سراپا حیا کے ساتھ جناب موسی کے پاس آئیں اور نہیں کہا آئیے ہم آپ کے کام کی اجرت ادا کریں گے بلکہ کہا ہمارے باپ نے آپ کو دعوت دی ہے تاکہ آپ کےکام کی اجرت دیں۔
پروردگار عالم نے پوری جزئیات کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کر کے بتایا کہ ایک خاتون میں حیا اور پاکدامنی کس حد تک ہونا چاہیے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :
" حیا مکمل دین ہے اور حیا انسان کو برائیوں سے روکتی ہے "
ساتویں امام امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا ارشاد ہے :
" انبیا ءعلیہم السلام کے کلمات قصار میں سے صرف ایک جملہ باقی بچا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس حیا نہیں تو جو چاہو وہ کرو "
{ ميزان الحكمة، جلد_2، صفحہ_717 }
{ امـــالـــي طوســـي، صفحـــہ_301 }
{ خصــــال صــــــدوق، صفحــــــہ_20 }




Like ·  ·  · 3

0 comments:

نماز سے خود کا مانوس کریں


نماز سے خود کا مانوس کریں!!

حضرت امام خامنه‌ای (حفظه الله) :
ترجمہ: آغا صادق تقوی
آپ تمام افراد خصوصاً نوجوانوں کو میری تاکید ھے کہ وہ خود کو نماز سے مانوس کریں اور اُس کے فوائد ظاہری و باطنی و ملکوت سے خود کو بہرہ مند کریں!
یعنی یہ کہ نماز کو معانی کی جانب توجہ اور خدائے متعال پُر جلال کی بارگاہ میں حاضری کے قوی احساس کے ساتھ بجا لائیں۔ اِس کام کو مسلسل مشق کے ساتھ اپنے اوپر آسان و سہل کریں تا کہ وہ صبح اور مغرب کی نافلہ نمازوں کو بھی اِسی انہماک و توجہ سے ادا کر سکیں۔
اگر اب بھی آپ کے دوستوں، نزدیکی افراد اور احباب میں کوئی ایسا ہے کہ جس نے خود کو نماز سے محروم کیا ہوا ہے تو آپ کو چاھیے کہ وہ اُسے اس گناہ عظیم اور خسارت بار جرم سے باز رکھیں۔
اِس کام کیلئے ضروری ھے کہ آپ اِس کام کو خوش رفتاری، نیک سلوک، حکیمانہ گفتار اور بہترین اخلاق کے ساتھ انجام دیں۔ لیکن توجہ رھے کہ اپنی اولاد خصوصاً نوجوان بچوں کیلئے والدین نہایت خطیر و سنگین ذمہ داری کے حامل ھیں!



'‎نماز سے خود کا مانوس کریں!!
حضرت امام خامنه‌ای (حفظه الله) :
ترجمہ: آغا صادق تقوی

آپ تمام افراد خصوصاً نوجوانوں کو میری تاکید ھے کہ وہ خود کو نماز سے مانوس کریں اور اُس کے فوائد ظاہری و باطنی و ملکوت سے خود کو بہرہ مند کریں!
یعنی یہ کہ نماز کو معانی کی جانب توجہ اور خدائے متعال پُر جلال کی بارگاہ میں حاضری کے قوی احساس کے ساتھ بجا لائیں۔ اِس کام کو مسلسل مشق کے ساتھ اپنے اوپر آسان و سہل کریں تا کہ وہ صبح اور مغرب کی نافلہ نمازوں کو بھی اِسی انہماک و توجہ سے ادا کر سکیں۔
اگر اب بھی آپ کے دوستوں، نزدیکی افراد اور احباب میں کوئی ایسا ہے کہ جس نے خود کو نماز سے محروم کیا ہوا ہے تو آپ کو چاھیے کہ وہ اُسے اس گناہ عظیم اور خسارت بار جرم سے باز رکھیں۔
اِس کام کیلئے ضروری ھے کہ آپ اِس کام کو خوش رفتاری، نیک سلوک، حکیمانہ گفتار اور بہترین اخلاق کے ساتھ انجام دیں۔ لیکن توجہ رھے کہ اپنی اولاد خصوصاً نوجوان بچوں کیلئے والدین نہایت خطیر و سنگین ذمہ داری کے حامل ھیں!‎'

0 comments:

ﻧﻤـــﺎﺯ ﮐﺎ ﺿـــﺎﺋﻊ ﮐـــﺮﻧﺎ



'‎" ﻧﻤـــﺎﺯ ﮐﺎ ﺿـــﺎﺋﻊ ﮐـــﺮﻧﺎ "
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻣﺤﻤﺪ
ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺑﮑﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﮑﺘﻮﺏ ﺳﮯ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﺍﮮ ﻣﺤـــﻤـــﺪ !
" ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ
ﺗﺎﺑﻊ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟـــﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺟـــﻮ
ﺷﺨﺺ ﻧﻤـــﺎﺯ ﮐﻮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ "
( ﺑﺤـــﺎﺭ ﺍﻻﻧﻮﺍﺭ، ﺟـــﻠﺪ _ ٨٣، ﺻﻔﺤـــﮧ _ ٢٤ )‎'

" ﻧﻤـــﺎﺯ ﮐﺎ ﺿـــﺎﺋﻊ ﮐـــﺮﻧﺎ "

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻣﺤﻤﺪ
ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺑﮑﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﮑﺘﻮﺏ ﺳﮯ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﺍﮮ ﻣﺤـــﻤـــﺪ !
" ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ
ﺗﺎﺑﻊ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟـــﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺟـــﻮ
ﺷﺨﺺ ﻧﻤـــﺎﺯ ﮐﻮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ "
( ﺑﺤـــﺎﺭ ﺍﻻﻧﻮﺍﺭ، ﺟـــﻠﺪ _ ٨٣، ﺻﻔﺤـــﮧ _ ٢٤ )

                                                                                 Copy From :-   NadyAli Kazmi


0 comments:

مشت زنی (خودارضائی)سے نجا ت

                        

                          مشت زنی (خودارضائی)سے نجا ت

                                                                                                                                       اخلاق و فلسفہ

         مشت زنی (خودارضائی)سے نجا ت


سوال:مشت زنی (خودارضا ئی )کے خطرناک نتا ئج اوراس بیما ری سے چھٹکا راپانے کے طریقے بیان کریں ؟
مشت زنی وہ خطرناک بیما ری ہے جس میں جوان کثرت سے مبتلاہوتے ہیں، اسے جنسی انحرا ف یا بیما ری کہہ لیں جس کے علا ج پر تو جہ بہت ضر وری ہے ، خود ارضا ئی کے نقصانا ت کی مختلف اقسا م ہیں ،ہم اختصا ر کے ساتھ بعض کی طرف اشا رہ کرتے ہیں:۔
ایک ۔جسما نی نقصانات
طب میں بیما ریو ں کے اضا فے کی پہچا ن کا ایک طریقہ علا ئم کی مر حلہ بندی (Staging) ہے اور خود ارضا ئی کی بیما ری میں مبتلا شخص میں پیدا شدہ عوا رض کے تین مرا حل بیان ہو ئے ہیں۔(۲)
۱۔مشکل ساز مرحلہ (Problematic)
جو افرا د خود ارضا ئی کی بیما ر ی میں مبتلا ہو چکے ہیں ان میں سب سے پہلے در ج ذیل عوارض و نتائج حا صل ہو تے ہیں ۔
الف: تھکا وٹ و ہلکا ن (Fatigues /Tiredness)
ب: عد م ارتکا زیت (بد حوا سی ) (Lack of Concentration)
(۱)میزا ن الحکمۃ ج ۵ / ص ۲۲۵۵حدیث ۷۵۳۶
(2) Stages of excessive masturbation .www.herballove.com / library / resource/
overmas/stage.asp
ج : قو ت حا فظہ کی کمز وری (Poor Memory )
د: دبا ؤ اور اضطرا ب (Stress / Anxiety)
۲۔شدید ابتلا کا مرحلہ (Severe)
افراد میں در ج ذیل علا ما ت کا ظہور اس با ت کی علا مت ہے کہ اس بیما ر کی بیما ری کی شدت یا مدت پہلے مرحلے سے زیا دہ ہے لہٰذا اس کے نتا ئج اس سے زیادہ بھیا نک ہوں گے۔
الف: تھکا وٹ و ہلکا ن (Fatigues /Tiredness)
ب: اخلا قی برتا ؤمیں تیزی سے تبدیلی واقع ہونا (Mood swings)
ج: حد سے زیاد ہ حسا سیت و زود رنجی (Irritability)
د: کمر درد (Low back pian)
ھ: با ل کا با ریک ہو جا نا(Thinning hair)
و: جوانی میں جنسی کمزوری (Youth impotence)
ز: بے خوابی یا نیم خوابی (Insomnia / Sleep problem)
۳: انتہا ئی شدید مشکل مرحلہ یا اعتیاد کی حالت (Addictive)
الف: تھکا وٹ و ہلکا ن (Fatigues /Tiredness)
ب: تیزی سے بال گرنا (Severe hair loss)
ج: آنکھو ں میں تا ریکی چھا جانا (Blurred vision)
د: کا نو ں میں سرسراہٹ (Buzzing in the ears)
ھ: بے ارا دہ انز ا ل یا منی کا قطرہ قطرہ کر کے نکلنا(Prematurely ejaculation (
و: رانو ں وتناسل وغیر ہ میں درد (Groin / Testicular pain)
ز: قولنج یا کمر درد ((Pain or cramps in the pelvic cavity or tail bone
بیماریوں کا آغاز
علمِ طب میں ایک بیما ری کی علا ما ت کا آغازاور اس کی طبی علا ما ت کا ظاہر ہونا ،اس بیماری کی پہچا ن میں بہت اہمیت کاحا مل ہے جو کہ ڈا کٹر کواس بیماری کے علاج میں اور مریض کو اس بیما ری کے بارے میں احتیا ط میں بہت مدد گا ر ہوسکتا ہے، اسی وجہ سے بہتر ہے کہ خود ارضا ئی کی بیما ری کے مذکو رہ با لا نقصا نا ت میں سے بعض کے بارے میں زیادہ وضا حت کی جا ئے تا کہ انسان ان نقصانا ت سے یا طبی اصطلاح میں Pathophysiology سے واقف ہو سکیں۔
۱۔تھکاوٹ و ہلکان
انزال کی وجہ سے تمام پٹھے شدت سے سکڑتے ہیں ،جس سے پٹھو ں میں موجودغذائی مادے کثرت سے استعما ل ہو نے لگتے ہیں ،سب سے زیا دہ گلیکو زن نا می ما دہ (جو پٹھوں کی طاقت پیداکرنے کا اصلی مادہ ہے)میں کمی واقع ہو تی ہے،پٹھو ں کی تھکا وٹ کا اس ما دہ کی کمی سے بلا واسطہ تعلق ہے اور یہ جتنی تیزی سے ہو گا تھکا وٹ اتنی زیادہ ہوگی۔(۱)
مشت زنی سے بد ن کے پٹھو ں کے بار بار کھچاؤ سے گلیکوزن کے ذخا ئر میں تیزی سے کمی واقع ہوتی ہے جس کا بدیہی نتیجہ دائمی تھکاوٹ کی صورت میں نکلتا ہے۔
۲۔بالوں کا گرنا
مشت زنی سے بد ن میں ہا ر مونک تبد یلیا ں پید ا ہو نا شر و ع ہو جا تی ہیں جس کی وجہ سے مردانہ جنسی ہارمونز (DHT-Dihydrotestosterone) میں اضافہ ہو جا تا ہے اور DHT نامی ما دہ کے خون میں اضافے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ با ل گر نے لگتے ہیں اور پروسٹیٹ کی غدودیں بڑھ جاتی ہیں جس کے منفی اثرات بڑھاپے میں ظاہر ہوتے ہیں۔(Herlauove.com)
۳۔ مشت زنی کے عمل کوباربارانجا م دینے سے پیرا سمپا تھک نا می اعصابی سسٹم حد سے زیا دہ متحرک ہوجاتاہے اوردماغ میں ان اعصاب کے آخرسے ایسٹل کو لن (Acetyle choline)
(۱) فیز لو جی گا یتو ن تر جمہ دکتر فر ح شا دج۱ / ص ۳۱۳
ااخراج زیادہ ہوجاتاہے جس سے کئی جسمانی و نفسیا تی نقصا نات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے حواس باختگی (Absentmindedness) حا فظہ کی کمزوری، عدم ارتکازیت میں آنکھوں میں تارے نظرآنااورآخرمیں نظرکی انتہا ئی کمزوری ،یہ سب مسا ئل دماغ میں موجود کیمیکل مواد جو کہ اعصابی خلیوں میں ردوبدل پاتے ہیں اور اہم پیغامات کو منتقل کرنے میں کام آتے ہیں ،اس کے درمیا ن اعتدال ختم ہوجا نے سے پیدا ہو جا تے ہیں ۔(۱)
بعض کا نظریہ یہ ہے کہ دما غی اختلا ل (جیسے با ختگی ، عدم ارتکا زیت اور حا فظہ کی کمی) کے پید ا ہونے کی وجہ بد ن کی اس عظیم انر جی کا ضیا ع ہے جو اس عمل کی صورت میں خارج ہو تی ہے (یعنی منی کا خروج ) کیونکہ ما دہ منو یہ میں بہت زیا دہ DNAموجود ہوتے ہیں (ہر انزال میں ۴۰۰۔ ۳۰۰ ملین اسپر م خا رج ہو تے ہیں ) RNA، انز یمز،پرو ٹینز، انسولین، لیتھینز ، کیلشیم ، فاسفورس
بائیالوجیک نمک ٹیسٹو سڑون وغیر ہ پر مشتمل ہے ،یہ انر جی کے عظیم ذخیر ے جنہیں بد ن میں باقی رہ کربدن کی نشوونما اور مختلف حصّوں کی تقویت میں استعما ل ہونا تھا انہیں بلاوجہ ضا ئع کر دیا جا تا ہے جس سے سخت نقصانات پیش آتے ہیں۔
مثال کے طو ر پر خونی خلیے جو ہڈیوں کے گو دے میں پید ا ہو تے ہیں اور تکا مل پاتے ہیں، ان خلیو ں کی پید ا ئش کے لئے بھی بہت ز یاد ہ انر جی کی ضر ور ت پڑتی ہے، اب جو افراد اس لعنتی مر ض (مشت زنی ) میں گر فتا ر ہیں ان کے ہڈیو ں کے گو دے کی تکمیل کے لئے بھی یہ خلیے پیدا نہیں ہوپاتے جس کی وجہ سے وہ خو ن کی کمی ، کمز وری اورتھکاوٹ جیسے عا رضوں میں وہ مبتلا ہو جاتے ہیں نیز مکر ر انز ال کے ذ ریعے حد سے زیا دہ فا سفو رس اور لیتھنز خارج کر دینے سے وہ ان مادوں کی کمی کا شکا ر ہو جا تے ہیں جو اعصا بی حیاتی خلیوں کی سلا متی کے لئے ضروری ہو تے ہیں جس کی وجہ سے اعصابی سسٹم کی فعالیت متاثر ہو جا تی ہے اوانسان کو حواس با ختگی ، عد م ارتکا زیت اور حافظہ کی کمی جیسے عوارض پیش آتے ہیں ۔(۲)
(۱) 4-men.org
(۲) .anael.org
دو:روحانی و نفسیاتی نقصا نات
حافظہ کی کمی ،حواس باختگی ، اضطراب، گوشہ نشینی، افسردگی، بدحا لی، زندگی کا بے لذت ہو نا، چڑچڑاپن، بداخلا قی، تندخو ئی، دائمی سستی، ضعفِ ارادہ، احسا س حقارت، خود اعتمادی میں کمی، احسا س گناہ اور ضمیر کی ملامت یہ سب مشت زنی کے روحانی و نفسیاتی نقصانات و نتائج ہیں ،ان میں سے بعض کی تشریحا ت پہلے گزر چکی ہیں۔
تین:معاشرتی نقصانات
گھریلو ناچاقی، شا دی سے بے رغبتی، جنسی کمزوری، عدم عزتِ نفس، غذا کی پاکیزگی شرافت اور معاشرتی حیثیت کے ختم ہو جا نے کااحسا س ، دیر سے شا دی کرنااور ازدواجی زندگی سے لذت حا صل نہ ہونا، یہ سب مشت زنی کے بعض معا شر تی نقصانا ت ہیں۔(۱)
چار:معنو ی اور اخر وی نقصانا ت
مذکورہ بالاجو نقصا نات ذکرہوئے وہ معنو ی نقصانا ت جتنی اہمیت نہیں رکھتے کیو نکہ معنوی نقصانات انسان کی جان ودل یعنی اس کی اصل حقیقت کوتباہ کردیتے ہیں خودارضا ئی (مشت زنی)شرعاً حرام اورگنا ہ ہے اورقرآن کی تعبیر کے مطا بق دل پر زنگ کا با عث ہے۔
کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ(۲)
ہرگزبلکہ ان کے (گندے) اعما ل نے ا ن کے دلو ں کو زنگ لگا دیا ہے
جب کسی دھا ت کو زنگ لگ جا تا ہے توا س کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ یہ دھات بو سید ہ ہو چکی ہے اور اس کی شفا فیت اورکشش ختم ہو چکی ہے ۔
(۱) مزید تفیصلا ت کے لئے دیکھیں علی ، قا ئمی ، خا نواد ہ ، و مسا ئل جنسی کو دکا ن
(۲) سورہ مطففین آیت / ۴ا
علامہ طبا طبا ئی تفسیرالمیزان میں فرما تے ہیں۔(۱)
اس آیت سے تین نکا ت کااستفا دہوتا ہے۔
۱۔ برے اعما ل انسا نی رو ح کو بری صورت میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
۲۔ یہ صورت باعث بنتی ہے کہ انسا ن حق و حقیقت کا ادرا ک نہ کر سکے ۔
۳۔ آدمی کی روح اپنی خا لص طبع میں ایسی شفا فیت و در خشندگی رکھتی ہے کہ وہ حق کو اسی طرح دیکھ سکتی ہے جیسے وہ ہے ۔
ان معنوی نقصانات کی اگر اصلاح نہ کی جائے تو انسا ن کی اخروی زند گی جو کہ دائمی ہے،تبا ہی وبدبختی سے دو چار ہو جا ئے گی،اسی وجہ سے دینی نصوص نے اس بارے میں انتبا ہ کیا ہے۔
رسول خدا ؐ نے فرما یا :
ناکح الکف ملعون (۲)
مشت زنی کر نے والا ملعو ن ہے
امام صا دق علیہ السلا م نے فرما یاخدا وند تعالیٰ قیا مت کے دن تین قسم کے افرادکے سا تھ نہ توکلام فرمائے گا اورنہ ہی انہیں پا ک فر ما ئے گا بلکہ انہیں در دنا ک عذاب دے گا، ان تین میں سے ایک وہ شخص ہے جو مشت زنی کر ے اور دوسراجو لو اطہ کرے ۔(۳)
دوسری روایت میں اما م صادق علیہ السلام نے فر ما یا مشت زنی بہت بڑا گناہ ہے۔(۴)
علا ج کے طریقے
۱۔ اس قبیح عاد ت کے علاج کے لئے سب سے پہلا قدم تو یہ ہے کہ اس کے قا بل علا ج
(۱)سید محمد حسین طبا طبا ئی ترجمہ تفسیر المیز ان از سید محمد با قر مو سوی ج ۲۰ / ص ۳۸۵
(۲)محمدی ری شری ، میزان الحکمۃ ج۱۲/ ص ۵۶۵۴
(۳) حوالہ سابق، حدیث /۱۹۰۴۹
(۴) حوالہ سابق، حدیث/ ۱۹۰۵۰
ہونے کا اعتقا دویقین پیدا کریں اور ما یوس و ناامید نہ ہوں ، البتہ اس مقصد کو پانے کے لئے وقت ،صحیح طریقے کا انتخا ب اور بیان شد ہ اصول و ضو ابط پرمکمل عمل کی ضرورت ہے ، یہی وجہ ہے کہ تھوڑے وقت میں ا وروہ بھی کسی ہمد رد و تجر بہ کا ر رہنما کے بغیر ،تقریباً اس بُری عادت کوترک کرنا ،ناممکن ہے، مشتِ زنی کر ترک کرنے میں سب سے اہم چیزانسان کاا پنا عزم و ارادہ ہے کیونکہ اس کا علا ج خود بیمار کے ارادے پر منحصر ہے جب تک وہ خو د نہ چا ہے اس بیماری کا علا ج یقیناًنا ممکن ہو گا ۔
لہٰذا بیما ر اگر چاہے تو اپنی بیما ری پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے ،ایک معر وف جملہ’’خوا ستن تو انستن است ‘‘اس حقیقت کا ترجما ن ہے، ارا دہ ایک پو دے کی ما نند ہے جسے پر و ان چڑھا نا پڑتا ہے،تا کہ وہ پھل پھو ل کر ثمر بخش ہو سکے ،دوسر ے لفظوں میں اراد ہ قا بل تقویت و پرو رش ہے اورا س کی تقویت و پرور ش کا طریقہ ہے یہ کہ انسا ن اپنی رغبت کے بر خلاف آہستہ آہستہ اس بری عاد ت کے مقا بلے میں کھڑا ہو جا ئے تا کہ کچھ مدت کے بعد اسے مزاحمت کی لذت محسو س ہو سکے۔(۱)
۲۔ اراد ہ کی تقویت ،صحت و سلا متی حا صل کر نے کے لئے بڑ ا اہم قدم ہے یہ قطعاً نہ کہو کہ ہم بے اختیا ر ہوچکے ہیں یاارادہ نہیں رکھتے کیو نکہ انسا ن کا ارادہ کمز ور تو ہو سکتا ہے لیکن مکمل ختم کبھی نہیں ہو سکتا،ارادے کی بقا ء کی دلیل یہ ہے کہ انسا ن اس قبیح عمل کونہ تودوسروں کے سامنے انجام نہیں دیتا ہے اور نہ ہی ہر حا ل میں اس فعل کا مرکب ہوتاہے، ارادے کی تقویت و مضبو طی کے لئے مختلف طریقے بیا ن کئے گئے ہیں ان میں سے ایک اپنے آپ کو تلقین و نصیحت کرناہے وکٹریو شہ فرانس کے ماہرنفسیات کہتے ہیں اس بری عا دت میں مبتلاافرادکوچاہیے کہ ہرروزکئی مر تبہ اپنے آپ سے کہیں میں اس بری عادت کو اپنے آپ سے دور کرنے پر قا در ہوں،یہ معمولی جملہ دھرا نے سے انسا ن کے ارادہ وجذبہ کو عجیب مضبوطی حا صل ہو تی ہے، پال جیک کے نزدیک سونے سے پہلے بھی تلقین کرنا بہت مفید ہے۔ (۲)
۳۔ کو شش کریں سونے کے وقت پیٹ زیا دہ بھراہوانہ ہو ۔
(۱)مو سسہ پژوہشی فر ہنگی اشرا ق ، خو د ارضائی یا خو د انحرا فی جنسی /ص ۲۹
(۲)سوال نمبر ۴۶ میں تقویت ارا دہ کے با رے میں رجو ع کریں
۴۔ تنگ اور ٹا ئیٹ لبا س پہننے سے پر ہیز کریں ۔
۵۔ ایسی تصا ویر ، ڈرامے یافلمیں نہ دیکھیں کہ جن سے جذبات ابھرتے ہو ں،اگر کہیں ایسے مناظر پیش آجا ئیں توآنکھیں بند کرلیں یا �آسما ن کی طر ف یا دوسری طرف دیکھیں ۔
۶۔ جنسی لطا ئف ، کہا نیا ں یا قصے سننے سے پرہیز کریں ۔
۷۔ گر م غذا ئیں جیسے خر ما، پیا ز ، مر چ، انڈے ، مچھلی اور مرغن غذائیں کھانے سے پرہیز کریں ۔
۸۔ سونے سے پہلے پیشا ب ضرورکریں ۔
۹۔ رات کو سونے سے پانی یادوسر ے ما ئعا ت بہت زیا دہ نہ پئیں ، خصوصاً رات سونے سے پہلے استعمال کم کریں۔
۱۰۔ اپنے ننگے بد ن پر کبھی نگاہ نہ دیکھیں ۔
۱۱۔ جنسی اعضا ء پر ہا تھ نہ پھیریں بلکہ کسی صورت بھی ایسا کا م نہ کریں ۔
۱۲۔ الٹا کبھی نہ سوئیں۔
۱۳۔ جسم کی زا ئد انرجی خر چ کرنے کے لیے با قا عد گی سے ور ز ش کریں ۔
۱۴۔ کبھی فا رغ نہ رہیں، اپنے فراغت کے اوقات کے لئے کوئی پر و گر ام ترتیب دے لیں جیسے مطالعہ ، ورزش ،عبا د ت ، تلا وت اور دوستوں سے میل ملا قا ت وغیر ہ ۔
۱۵۔ کبھی ایسی جگہ نہ بیٹھیں جو خا لی اور دوسروں کی نگا ہو ں سے اوجھل ہو ۔
۱۶ ۔ اگر آپ پر جنسی جذبا ت غالب آنے لگیں تو فور اً خلو ت والی جگہ سے نکل جا ئیں۔












0 comments:

نمـــاز کے دس فــوائـــد



                                                         " نمـــاز کے دس فــوائـــد "

حضور اکرم صل الله علیہ و آل وسلم نے فرمایا :
نماز دین کا ستـــوں ہے اور اس کے دس فوائـــد ہیں :
چہرے کا نور، دل کا نور، بـــدن کی راحت ، قبر کی مانوسیت، رحمت کا مقام ، آسمان کے لئے چراغ ( وہ جگہ جہاں نماز پڑھی جاۓ اہل _آسمان کی نظروں میں ستارہ کی مانند درخشاں ہوتی ہے )، میزان میں وزن ، الله کی رضـــا، جنت کی قیمت، دوزخ سے حجـــاب -
جس نے نماز قائم کی اس نے اپنے دین کو قائم رکھا اور جس نے نماز کو چھوڑا اس کا دین گر گیا -
{ ہــدیتــہ الشیعــہ ، صفحــہ_٤٦١ }

      Copy From :-  Kaneez e Zainab s.a


0 comments:

بیٹی اللہ کی رحمت




                                                          بیٹی اللہ کی رحمت

" ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا 
ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہوگئیں اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے شیطان نے اس کو بہکایا چناںچہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اب بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور۔
رات کو سویا تو اس نے عجیب وغریب خواب دیکھا اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے اس پر گھبراہٹ طاری ہوئی کہ اس دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا اسے معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل چکی تھی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔
اللھم ارزقنا السابعۃ
اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔
اس لئے جن لوگوں کا قضا وقدر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ایمان کی کمزوری کے سبب جن بد عقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں یہ سرا سر غلط ہے اس میں بیویوں کا یا خود ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک ذریعہ ہیں پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے وہی جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے ایسی صورت میں ہر مسلمان پر واجب ہے اللہ تعالی کی قضا وقدر پر راضی ہو اللہ تعالی نے سورہ شوری میں ارشاد فرمایا ہے:-
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (50)
(ترجمہ)
آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا پھر لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے......!!

0 comments:





امام جعفر صادق علیہ السلام اور ایک ہندی طبیب :-




امام جعفر صادق (ع) ایک بار منصور کے دربار میں تشریف لے گئے تو وہاں ایک طبیب ہندی ایک کتاب ''طب ہندی'' منصور کو پڑھ کر سنا رہا تھا، آپ بھی بیٹھ کر خاموشی سے سُننے لگے۔ جب وہ فارغ ہوا تو آپ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور منصور سے پوچھا، یہ کون ہیں۔ منصور نے جواب میں کہا ، یہ عالمِ آلِ محمد ہیں۔ طبیب ہندی آپ سے مخاطب ہوا اور بولا، آپ بھی اس کتاب سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، نہیں۔ اُس نے کہا، کیوں؟ آپ نے فرمایا جو کچھ میرے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اس نے کہا، آپ کے پاس کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہم گرمی کا سردی اور سردی کا گرمی سے۔ رطوبت کا خشکی سے اور خشکی کا رطوبت سے علاج کرتے ہیں۔ اور جو کچھ رسول خدا نے فرمایا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور انجام کار خدا پر چھوڑتے ہیں۔ طبیب ہندی نے کہا وہ کیا ہے؟
امام:۔ فرمودئہ رسول یہ ہے کہ شِکم پر بیماری کا گہرا اثر ہوتا ہے اور پرہیز ہر بیماری کا علاج ہے جسم جس چیز کا عادی ہو گیا ہو اُس سے اُس کو محروم نہ کرو۔
طبیب:- ہندی:۔ مگر یہ چیز طِب کے خلاف ہے
امام:۔ شاید تمہارا یہ خیال ہے کہ میں نے یہ علم کتاب سے حاصل کیا ہے طبیب ہندی:۔ اسکے علاوہ بھی کیا کوئی صورت ہے
امام:۔ میں نے یہ علم سوائے خدا کے کسی سے حاصل نہیں کیا۔ لہذا بتلاوٴ ہم دونوں میں کس کا علم بلند و برتر ہے۔
طبیب:- کیا کہاجائے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید میں آپ سے زیادہ عالم ہوں۔ امام:۔ اچھا میں تم سے کچھ سوال کرسکتا ہوں؟
طبیب:۔ ضرور پوچھئے۔
امام:۔ یہ بتاوٴ کہ آدمی کی کھوپڑی میں کثیر جوڑ کیوں ہیں،سپاٹ کیوں نہیں طبیب:۔ کچھ غور و خوض کے بعد ، میں نہیں جانتا
امام:۔ اچھا پیشانی پر سر کی طرح بال کیوں نہیں ہیں
طبیب:۔ میں نہیں جانتا
امام:۔ پیشانی پر خطوط کیوں ہیں
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ آنکھوں پر اَبرو کیوں قرار دیئے گئے ہیں۔
طبیب:۔ میں نہیں جانتا
امام:۔ آنکھیں بادام کی شکل کی کیوں بنائی ہیں
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ ناک دونوں آنکھوں کے درمیان کیوں ہے
طبیب:۔ مجھے معلوم نہیں
امام:۔ ناک کے سوراخ نیچے کی طرف کیوں ہیں
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ ہونٹ، منھ کے سامنے کیوں بنائے ہیں
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ آگے کے دانت باریک و تیز اور داڑھیں چپٹی کیوں ہیں
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ مرد کے داڑھی کیوں ہے
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ ہتھیلی اور تلوے میں بال کیوں نہیں ہیں
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ ناخُن اور بال بے جان کیوں ہیں۔
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ دِل صنوبری شکل کا کیوں ہے
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ پھیپھڑے کے دو حصے کیوں ہیں اور متحرک کیوں ہیں۔
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ جگر گول کیوں ہے
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف کیوں ہے۔
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ میں خدائے دانا و برتر کے فضل سے ان تمام باتوں سے واقف ہوں۔
طبیب:۔ فرمایئے میں بھی مستفید ہوں
امام: غورسے سُن
۱۔ آدمی کی کھوپڑی میں مختلف جوڑ اس لئے رکھے گئے ہیں تا کہ دردِ سر اُسکو نہ ستائے
۲۔ سر پر بال اِس لئے اُگائے تاکہ دماغ تک روغن کی مالِش کا اثر جاسکے،اور دماغ کے بُخارات خارج ہو سکیں، نیز سردی و گرمی کا بہ لحاظِ وقت لباس بن جائیں
۳۔ پیشانی کو بالوں سے خالی رکھا تا کہ آنکھوں تک نور بے رکاوٹ آسکے۔
۴۔ پیشانی پر خطوط اِس لئے بنائے ہیں تا کہ پسینہ آنکھوں میں نہ جائے۔
۵۔ آنکھوں کے اوپر اَبرو اِسلئے بنائے تا کہ آنکھوں تک بقدر ضرورت نور پہنچے۔ دیکھوجب روشنی زیادہ ہو جاتی ہے تو آدمی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چیزوں کو دیکھتا ہے۔
۶۔ ناک دونوں آنکھوں کے درمیان اس لئے بنائی ہے تاکہ روشنی کو برابر دو حصوں میں تقسیم کردے تاکہ معتدل روشنی آنکھوں تک پہونچے
۷۔ آنکھوں کو بادام کی شکل اس وجہ سے دی تاکہ آنکھوں میں جو دوا سلائی سے لگائی جائے اُس میں آسانی ہو اور میل آنسووٴں کے ذریعہ بہ آسانی خارج ہو سکے۔
۸۔ ناک کے سوراخ نیچے کی طرف اِسلئے بنائے تاکہ مغز کا میل وغیرہ اس سے خارج ہو اور خوشبو بذریعہ ہوا دماغ تک جائے اور لقمہ منھ میں رکھتے وقت فورًامعلوم ہو جائے کہ غذا کثیف ہے یا لطیف۔
۹۔ ہونٹ، مُنھ کے سامنے اِسلئے بنائے کہ دماغ کی کثافتیں جو ناک کے ذریعہ آئیں منھ مین نہ جاسکیں۔ اور خوراک کو آلودہ نہ کردیں۔
۱۰- داڑھی اسلئے بنائی تاکہ مرد اور عورت میں تمیز کی جاسکے ورنہ بڑا شرمناک طریقہ اختیار کرنا پڑتا۔
۱۱۔ آگے کے دانت باریک اور تیز اِس لئے بنائے گئے تاکہ غذا کو کاٹ کرٹکڑے ٹکڑے کر سکیں اور داڑھوں کو چوڑے(چَپٹے) اِس لئے بنائے تاکہ وہ غذا کو پیس سکیں۔
۱۲۔ ہاتھوں کی ہتھیلیاں بالوں سے اِس لئے خالی رکھیں تاکہ قوتِ لامسہ(چھونے کی قوت) صحیح کام انجام دے سکے۔
۱۳۔ ناخُن اور بالوں میں جان اِس لئے نہیں ، کہ انکے کاٹنے میں تکلیف کا سامنا باربار نہ ہو۔
۱٤۔ دِل صنوبری شکل اِسلئے دی گئی تاکہ اسکی باریک نوک پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انکی ہوا سے ٹھنڈی رہے۔
۱۵۔ پھیپھڑوں کو دو حصوں میں اس وجہ سے تقسیم کیا گیا ہے کہ دِل دونوں طرف سے ہوا حاصل کر سکے۔
۱۶۔ جِگر کو گول اِسلئے بنایا ہے تاکہ معدہ کی سنگینی اپنا بوجھ اس پر ڈال کر زہریلے بُخارات کو خارج کر دے۔
۱۷۔ گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف اسلئے ہے تاکہ آدمی بہ آسانی را ہ چل سکے، ورنہ راستہ چلنا مشکل ہو جاتا۔
طبیبِ جو اب تک دم بخود ہو چکا تھا، نے بڑے اِحترام سے امام سے درخواست کی کہ اِنسان کے جسم کی بناوٹ کی کچھ وضاحت فرمائیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ:
خدا نے اِنسان کو بہ لحاظ ہیکل اِستخوانی دو سو آٹھ حصوں سے ترکیب دیا ہے۔ اِنسان کے جسم میں بارہ اعضاء ہیں ۔ سر، گردن، دو بازو، دو کلائی، دو ران، دو ساق (پنڈلیاں) اور دو پہلو اور تین سو ساٹھ رگیں ، ہڈیاں، پٹھے، اور گوشت۔۔ رَگیں جسم کی آبیاری کرتی ہیں۔ ھڈیاں بدن کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور گوشت ہڈیوں کا تحفظ کرتا ہے۔ اور اس کے بعد پَٹھے گوشت کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہر ہاتھ میں اِکتالیس ہڈیاں ہیں۔ پینتیس ہڈیوں کا ہتھیلی اور انگلیوں سے تعلق ہے۔ اور دو کا تعلق کلائی سے اور ایک کا تعلق بازو سے اور تین کا کندھے سے تعلق ہے۔ ہر پیر میں تینتالیس ہڈیاں پیدا کی ہیں۔ جن میں پینتیس پاؤں میں اور دُو پنڈلی میں اور تین زانو میں اور ایک ران میں اور دو نشیمن گاہ میں یعنی بیٹھنے کی جگہ میں۔۔ ریڑھ کی ہڈی میں اَٹھارہ ٹکڑے ہیں۔ گردن میں آٹھ، سر میں چھتیس ٹکڑے ہیں۔ اور منھ میں اٹھائیس یا بتیس دانت ہیں۔
اِس زمانہ میں جو ترکیب اِنسان کی ہڈیوں کو شمار کیا گیا ہے اُس میں اور فرمانِ امام میں اگر تھوڑا فرق ہو تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ بعض ان دو ہڈیوں کو جو بہت ہی متصل ہیں ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔ امام علیہ السلام نے صدیوں قبل بغیر کسی آلہ اور فن معلومات کے تحقیق طِبی فرمائی ہے وہ آپ کے علم ِ امامت کا بَیّن ثبوت ہے۔ دورانِ خون یہ مسئلہ جو اطباء ِ مشرق نے بعد میں معلوم کیا ہے رازی کا بیان ہے کہ اسکو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے صدیوں پہلے کتاب توحیدِ مفضل میں بیان فرما دیا ہے۔
امام علیہ السلام نے اپنے شاگرد( مفضل) کو مخاطب کر کے فرمایا، اے مفضل! ذرا غذا کے بدن میں پہونچنے پر غور کرو، اور دیکھو کہ اس حکیم مطلق نے اس عجیب کارخانہ کو کس حکمت اور تدبیر سے چَلایا ہے۔ غذا منھ کے ذریعہ پہلے معدہ میں جاتی ہے۔ پھر حرارتِ غریری اس کو پکاتی ہے اور پھر باریک رگوں کے ذریعہ جگر میں پہونچتی ہے۔ یہ رگیں غذا کو صاف کرتی ہیں تا کہ کوئی سخت چیز جگر کو تکلیف نہ پہونچا دے۔ کیونکہ جگر ہر عضو سے زیادہ نازک ہے۔ ذرا اللہ کی اس حکمت پر غور کرو کہ اُسنے ہر عضو کو کس قدر صحیح مقام پر رکھاہے۔اور فُضلہ کے لئے کیسے ظروف(پِتہ، تِلّی اور مثانہ) خلق فرمائے تاکہ فُضلات جسم میں نہ پھیلیں، اور تمام جسم کو فاسد نہ بنا دیں۔ اگر پِتہ نہ ہوتا تو زَرد پانی خون میں داخل ہو کر مختلف بیماریاں مثلًا یرقان وغیرہ پیدا کر دیتا۔ اگر مثانہ نہ ہوتا تو پیشاب خارج نہ ہوتا اور پیشاب خون میں داخل ہو کر سارے جسم میں زہر پھیلا دیتا....
بشکریہ برادر فدا حسین گھلوی صاحب

0 comments:

ad